پچھلے دنوں "مولانا مودودی " کی بابت فیس بک کے صداۓ مسلم فورم پر ایک گفتگو ہوئی جس میں مولانا کے متعلق بات ہوتی رہی اور فیس بک کے دوستوں نے اس بات چیت میں حصہ لیا اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ، اس گگتگو میں شامل اسلامی معیشت کا موضوع بھی تھا ، اسی گفتگو سے ہم نےمندرجہ ذیل مباحث لیے ہیں اور معمولی حک و اضافہ سے قارئیں کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں تاکہ اگر کوئی صاحب چاہے تو استفادہ کر سکتا ہے.
علمائے اسلام میں سے جمہور کی راۓ یہ ہے کہ قرض پر جو بھی اضافی متعین رقم لی اور دی جاۓ وہ "ربا" سود ہے اور اس کے لئے نصوص قرآن و سنت میں سخت وعید ہے . "الربا" یعنی سود مکمل طور پر حرام ہے اس حد تک تو تمام امت مسلمہ کا اتفاق ہے لیکن "الربا" کے مفہوم میں جمہور اور علماۓ الازہر وغیرہ کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں."الربا" کی تعبیر و تشریح کےعلاوہ الازہر کے کئی اور فتویٰ پر بھی اسلامی دنیا کے تحفظات پاۓ جاتے ہیں،نیزان کی تائید و مخالفت میں متعدد مقالات اور علمی تحریریں سامنے آئ ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے
بنکوں میں جمع شدہ رقوم پر ملنے والا نفع.
ازہری علماء بنکوں میں رقوم رکھنے پر بنک کی طرف سے ملنے والی رقم یا منافع کو حلال جانتے ہیں. اس سلسلے میں سب سے پہلا فتویٰ امام محمّد عبدہ (م ١٩٠٥) نے دیا اور سورہ البقرہ کی آیات ٢٧٥ تا ٢٨١ کی تفسیر میں اس ربا کو بیان کرنے کے بعد جسے حرام کرنے کے لیے یہ آیات نازل ہوئی تھیں کہا" اس میں وہ شخص دا خل نہیں ہے جو اپنے مال کو کسی دوسرے شخص کو کسی کام میں لگانے کے لئے دے اور وہ شخص اپنی کمائی سے کچھ متعین حصہ اس پہلے شخص کو دے، چاہے یہ نفع تھوڑا ہو یا بہت ..اس کے متعیں ہونے سے قواید فقہاء کی تو مخالفت ہے، کیونکہ وہ کسی بھی سطح پر متعین نفع کو جائز قرار نہیں دیتے، لیکن یہ وہ واضح مرکب سود نہیں ہے، جو معا شرے کی تباہی کا با عث ہو اور جس کی حرمت کے لیے یہ آیت نازل ہوئیں
اس کے بعد انہوں نے علت بیان کرتے ہوے کہا -یہ معامله صاحب مال اور عامل (کارندہ) دونوں کے لیے نفع بخش ہے. اس کے برعکس سود بلا سبب ایک فریق کو نقصان پہنچاتا ہے اور دوسرے فریق کو بغیر اس کی کسی محنت و مشقت کے منفعت پہنچا تا ہے، اسی لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف میں ان دونوں معاملوں کا حکم ایک ہی ہو .کسی بھی عقل مند اور عادل انسان کے نزدیک نفع بخش چیز کو نقصان دہ چیز پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ،اور نہ ان کا حکم ہی ایک جیسا ہو سکتا ہے.
انہی دلائل کو سامنے رکھتے ہونے بعد میں آنے والے شیخ الاز ہر الشیخ محمود شلتوت نے آپس کے تعاون کی بنیاد پر قائم ہونے والی کمپنیوں کی طرف سے دیئے جانے والے طے شدہ منا فع کو جائز قرار دیا . اس طرح سیونگ بنک کے نفع کو بھی انہوں نے جائز قرار دیا . وہ کہتے ہیں. یہ معاملہ اپنی کیفیت ،تمام حا لا ت کے اعتبار اور نفع کی ضمانت کی وجہ سے اس شراکت سے مختلف ہے جس کی تفصیلات ہما رے اولین فقہاء نے بیان کیں .اس کی اقسام واضح کیں اور شرائط مقرر کیں.--فتویٰ کے آخر میں لکھتے ہیں -- اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ یہ نفع سود نہیں ہے کے اسے حرام قرار دیا جاۓ. یہ ایک دوسرے کو سہولت پہنچا نے اور باہمی تعاون کی حوصلہ افزائی کی ایک شکل ہے،اور یہ وہ اقدار ہیں، جن کی شر یعت بھی حوصلہ افزائی کرتی ہے.
بنکوں کے نفع کے بارے میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار موجودہ شیخ ا الا اظہر اور سابق مفتی مصر ڈاکٹر Tantavi نے بھی کیا ہے. دیکھیے انکی کتاب معاملات النبوک و ا حکامھا الشرعیة.-- ا لا ازہر سے ہٹ کر ، اگر ہم دیگر علمائے کرام کی طرف رجوع کریں تو وہ بنکوں میں رکھی گئی رقوم پر ملنے والے نفع کو حرام قرار دیتے ہیں . جس میں مولانا مودودی، گوہر رحمٰن،مولانا مجیب اللہ ندوی، اسلامک فقہ اکادمی انڈیا ، وغیرہ وغیرہ .
انشورنس
اسی طرح ازہری علماء میں الشیخ عبدا للہ سیام نے ١٩٣٣ میں انشرونس کے جواز کا فتویٰ دیا. انکے بعد الشیخ احمد طہ السنوسی نے اسے جائز قرار دیا. اور آخر میں مشہور ازہری عا لم الشیخ عبدا لو ہا ب خلاف نے ١٩٥٣ میں اپنے فتویٰ میں لکھا.
زندگی کی انشور نس کرانا بالکل صحیح ہے اور یہ کمپنی ،اس میں شریک افراد اور سو سا یئٹی society سب ہی کے لیے مفید ہے اور اس میں کسی کے لیے کوئی نقصان نہیں- اس میں کسی ایک کا مال کوئی دوسرا نا حق نہیں کھا تا، بلکہ یہ تو مشترکہ مفاد کے لیے آپس کا تعا ون ہے. شر یعت تو نقصان دہ چیز کو حرام کرتی ہے، یا جس کا نقصان نفع سے زیادہ ہو.
جامعہ ا لا ازہر کے ادارے مجمع الجوث ا لا سلا میہ نے ١٩٦٥ میں اپنی دوسری سا لانہ کانفرنس منعقدہ قاہرہ میں حکومت کی طرف سے جاری کردہ پنشن کے نظام،بعض دوسرے مما لک میں جاری سو شل سیکورٹی اور سو شل انشو رنس کے نظام کو جائز قرار دیا ، تاہم انشو ر نس کے کارو بار کی وہ صورتیں جن میں تجارتی کمپنیاں کام کرتی ہیں، اس بارے میں مزید تحقیق کرنے کو کہا. -- اب تک مجمع الجوث الاسلامیہ کے ارکان انشورنس کی تائید اور مخالفت میں دو حصوں میں منقسم ہیں اور کوئی واضح فیصلہ منظر عام پر نہیں آ سکا، البتہ مویدین میں سے ڈاکٹر محمّد البہی کی کتاب التامیں فی ھدی احکام ا لا سلام و ضرورات المجمع المعاصر منظر عام پر آ چکی ہے . انشورنس کے کا رو بار کے بارے میں ازہر کے علاوہ دیگر علماے کرام کی آرا بالکل مختلف ہے.-----------------------------------------------------مولانا مودودی لکھتے ہیں- انشورنس کے بارے میں شرع اسلامی کی رو سے تین اصولی اعتراضات ہیں جن کی بنیاد پر اسے جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا.
سعودی ہیتہ کبارالعلماء نے ١٣٩٧ مطابق ١٩٧٧ میں ریاض میں اپنے اجلاس میں انشورنس کے بارے میں غور کیا. تفصیلی گفتگو اور اس مو ضوع پر دستیاب مواد کو دیکھنے کے بعد کونسل اس نتیجے پر پہنچی کہ تجارتی بیمہ اپنی موجودہ شکل میں حرام ہے. کونسل نے یہ رائے بھی دی کی تعا ونی بیمہ جائز ہے اور وہ تجارتی بیمے کا بدل ہو سکتا ہے --- اسی طرح رابطہ عالم اسلامی نے بھی ایک کمیٹی ١٩٧٨ میں تشکیل دی جس کے ارکان الشیخ عبدل عزیز بن باز، الشیخ محمود الصواف اور الشیخ عبداللہ السبیل تھے. اس کمیٹی نے بھی تجارتی بیمے کے عدم جواز اور تعا ونی بیمے کے جائز ہونے کا فیصلہ دیا.--- اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی رائے کے مطابق بھی معاہدہ بیمہ ان اسباب کی بنا پر فاسد ،نا جائز اور ممنوع ہے.* اس میں غرر فا حش پا یا جاتا ہے * اس میں قمار کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے * اس میں سود کا عنصر پایا جاتا ہے.(اجتماعی اجتہاد تصور،ارتقاء اور عملی صورتیں - IRI Islamabad ---page-333 وغیرہ سے استفادہ کیا گیا )
گفتگو میں شامل ایک دوست کا کہنا ہے کہ،یہاں دیکھنے وا لی ضروری بات یہ ہے کہ کیا علما ے الا ازہر دوسروں سے کم علم والے ہیں یا انکی اپروچ نصوص سے استنباط احکام میں درست نہیں؟ یہ علماء بہت زیادہ علم و عمل والے ہیں اور جو نکات انہوں نے پیش کیے ہیں ان میں اسلامی معیشت کی سوجھ بوجھ اور انسانوں کے مصا لح کا خاص خیال نظر آتا ہے . اس لیے اسلامک سکالرز کو چاہے کہ ان آراؤں کو تحقیقی پیمانوں پر پرکھیں ، کیوں کہ اسلامی معاشیات کی راہ میں بہت زیادہ رکاوٹیں اور مسا ئل ہیں ،اور اسلامی بنکوں کا اگرچہ قیام عمل میں لایا جا چکا ہے ،لیکن انکا زیادہ کام "شرعی حیلوں " کے بل بوتے پر چل رہا ہے. انکو اسلامی قوانین کے تحت لانا ہو گا ،تاکہ لوگ اس نظام سے متنفرنہ ہو جائیں. پاکستان میں "زرعی ترقیاتی بنک"ADBP/ZTBL نے پچھلی صدی کے نویں عشرے میں اسلامی بنکاری کا نظام شروع کیا تھا مگر ناکام ہو کر دوبارہ "پرانے Interest based سودی نظام پر آ گیا ہے .(محمد عثمان )
Mohammad Fayaz کا کہنا ہے کہ " فقہ پر ہمیشہ سے اسلامی اسکالرز کی رائے مخلتف رہتی ہیں جدیدیت کے چیلنجوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس شعبہ میں کافی کام ہو چکا ہے اور آج دنیا میں اس موضوع پر مسلم اور غیر مسلم ماہریں کام کر رہے ہیں ہم چونکہ ماہر فقہ اور ماہر معشایات نہٰں اس لیے ہم اس پر ان علما اور اسکالرز کی رایے کو مانتے ہیں جو اس موضوع پر دسترس رکھتے ہیں،جہاں تک جامعہ الازہر کا تعلق ہے پچھلی چند دہایوں سے اس جامعہ پر حکومتی مداخلت نے اس کی تحقیقی ساکھ کو متاثر کیا ہے اسلیے آمرانہ دور میں اس جامعہ کے اسکالرز نے آزادنہ رائے بہت کم دی ہے وہی موقف اپنایا جو اس قوت کے آمر کا حکم ہوا کرتا تھا"
ما ثر الامرا، آمرانہ تسلط اگرچہ انسانو ں کی سوچ اور کارکردگی پر گہرے ا ڈالتا ہے، لیکن یہ بات مد نظر رکھنی بہت ضروری ہے کہ بات کرنے والا کیا بات کر رہا ہے اور کیا کر رہا اور اس کا مآخذ شر یعت میں کیا ہے، اگر صدر اسلام ہی کو لیں تو پتا چلتا ہے کہ، امام ابو حنیفہ ، امام مالک اور امام حنبل پر ظلم ڈا ہا ئے گنے اور حضرت امام شا فعی (رح) کے سر پر چابیوں کا گچھا مارا گیا جس سے انکی بلاآخر موت واقع ہوئی. یہ حقیقت ہے کہ الازہر کی فقہی آراؤں پر عا لم اسلام کے تحفظات ہیں اور ان پر بحث بھی ہوتی ہے ، لیکن دوسرے طرف یہ فیصلے نظائر Precedents کی حیثیت رکھتے ہیں.
Talib Hussain--- زرعی بنک کے متعلقہ ہمارے مضمون Islamic banking in Pakistan some aspects میں اقتباس دیکھ سکتے ہیں http://talibhaq.blogspot.com/ ---علماے الا زہر کی آراؤں پر مباحث The supreme Court's judgement on Riba. IIUI Shariah Academy میں دیکھے جا سکتے ہیں.
Abdullah Ahamad کا کہنا ہے کہ" ماشاٗاللہ۔۔۔۔۔۔ بہت معلوماتی اور علمی بحث ہوئی ۔ہمیں مذکورہ بحث سے فائدہ ہوا۔"
Usman Haider نے مزید اس میں اضافہ کیا کہ " ایک اقتباس.ڈاکٹر سید طنطا و ی ( سابق مفتی مصر) صاحب نے اپنی کتاب پر اٹھنے والے اعتراضات کے جواب میں ایک انٹرویو میں کہا. " یہ کہنا کہ مفتی مصر سود کی حلا ل سمجھتا ہے، بالکل غلط ہے. ایسی بات تو کوئی بھی صاحب دین و عقل کہہ نہیں سکتا. بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ جو شخص سودی لیں دین کو جائز کرے،وہ مرتد اور اسلام سے خارج ہے، کیونکہ اس نے اس چیز کو حلال کیا جو واضح طور پر حرام ہے. اب رہی یہ بات کہ میں نے بنکوں کے معاملات جیسے سیو نگ سر ٹیفکیٹ اور اس سے ملتے جلتے معاملات کو جائز قرار دیا ہے تو یہ الگ بات ہے، اور درست ہے. میں نے یہ یو نہی نہیں کہ دیا. بلکہ بڑے گہرے علمی مطا لعے ، بنکوں کے بارے میں اقتصادی اور شرعی ماہرین سے باہمی مشاورت کے بعد میں نے اسے جائز قرار دیا ہے جس کی تفصیل میری کتاب میں موجود ہے. ایسا کہنے میں اکیلا نہیں ہوں کہ سیو نگ سرٹیفکیٹ اور ایسے دیگر معاملات اور ان کا نفع حلال ہے، بلکہ مجھ سے پہلے جلیل ا القدر علماء کی بھی یہی را ئے ہے. جیسے عبدل الجلیل عیسی، یاسین سویلم ، عبدا للہ المشد ، محمد سلام مدکور، زکریا البری اور عبدل العظیم برکہ وغیرہ کتاب - الحلال و ا لحرام فی معاملات النبوک ، مصر :مارچ ١٩٩٢،س، ٤٢ ، بذریعہ تاج الدین ازہری .
اسلامی معیشت کے حوالے سے مندرجہ ذیل جہتیں سید مودودی کے کام میں دیکھی جاتی ہیں .١.اسلامی فلسفہ معشیت کی نوعیت و ما ہیت یا اس کے فلسفیانہ پہلو پر مباحث.
2.اسلام کی معاشی تعلیمات کی تشریح اور انہیں ایک منضبط شکل دینے کی کوشش -٣- مروجہ معاشی نظام کی اسلامی معاشی نظام میں تبدیلی کے فکری مباحث.
٤. اسلام کا دیگر نظام ہاے میشت سے موازنہ
٥. اپنے عہد کے معاشی مسا ئل کا تجزیہ ( دیکھیں- کتاب سود-via-پروفیسر ڈاکٹر فاروق عزیز.)
جہاں تک علماءے ا الازہر کی آراؤںکا تعلق ہے تو اس کے بارے میں FSC, SC کورٹس میں یہ معاملہ زیر بحث آ چکا ہے. اور کتاب کا حوالہ بھی احقر دے چکا ہوں. اس ضمن میں عرض کروں گا اور اس میں مزید اضا فہ کروں گا کہ سود/منافع جزوی طور پر نا تو ماہرین معا شیا ت کے نزدیک فائدہ مند هو سکتا ہے اور نا ہی ماہرین شریعت کے نزدیک.کیونکہ اگر صرف یہ کہا جاے کہ سیونگ بنک اکاونٹ اور اس طرح کے معاملات میں معین منا فع درست ہے باقی میں نہیں تو اس سے بنکنگ کی "مشارکہ" وغیرہ کی سکیم مکمل نہیں ہوتی جب تک اسے آگے کسی فائدہ مند کام میں نہ لگایا جا ے تو ظاہر ہے جب مخلوط سسٹم هو گا تو بنک یا ادارے کو اورکوئی مںافع بخش مارکیٹ دیکھنا هو گی یہ سودی بھی هو سکی اور غیر سودی بھی. مسلم معاشرے میں اس طرح مشکلات پیدا هو سکتی ہیں. ا ور معاشی میدان میں اس سے وقتی فائدہ تو هو سکتا ہےلیکن مستقل بنیادوں پر کچھ کہا نہیں جاسکتا. دوسری طرف ایسے اکاونٹس اگر سودی بنک میں کھولے جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ هو گا کہ سودی نظام کو تقویت پہنچائی گئی ہے. اگر ایک قرضہ،ڈیپازٹ ،معاملہ پر بڑھوتری جا ئز ہے تو دوسرے میں عدم جواز کیوں؟اس طرح اس ضمن میں ماہرین معشیت اور ماہرین شریعت کو غور کرنا چاہیے .
جب متعین منفع طے ہو جاتا ہے تو اس پر کوئی بھی اسلامک طریقہ تمویل لاگو نہیں ہو سکتا . ڈیپازٹ دہندہ fixed profit لینے کا حق دار رہ جاتا ہے، ڈیپازٹ گیر یندہ نفع دینے کا، چا ہے اسے نقصان ہی کیوں نا ہو،اس طرح غرر فحش پایا جاتا ہے. ڈیپازٹ گیریندہ اسے اگر غلط استعمال کرے تو اس کے مفاسد فائدہ سے بڑھ جاتے ہیں اور یہ قرآنی اصول کے خلاف ہے ، جو شراب اور جوئے والی آیت سے اخذ کیا جاتا ہے. یہ اس قرآنی اصول کے بھی خلاف ہے"کہ دولت چند ہاتھوں میں ہی نہ گردش کرتی رہے" اس طرح کے ڈیپازٹ سے دولت کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ پاتے، جس طرح آج کل ہو رہا ہے . قمار اور سود کی وعید کو گڈ مد نہیں کیا جا سکتا --یہ بھی امر قابل غور ہے . پاکستان میں سب سے پہلے بنکوں اور معیشت کو اسلامیا نے پر رپورٹ ١٩٧٩ میں پاکستان نظریاتی کونسل نے تیار کی اور پھر ١٩٨٠ میں بھی ،سودی بنکوں میں نفع اور نقصان کی بنیادوں پر اکاونٹ کھولنے شروع ہوئے جو اپنی تمام ترنوعیت کے ا عتبار سے بالکل غیر اسلامی تھے. زرعی بنک کو اسلامک بنکنگ سسٹم میں لیا گیا -اور پھر اس نظام کی ناکامی کے بعد دوبارہ سودی نظام کی طرف لایا گیا - احقر کی تحریر سے یہ نتیجہ اخذ نہ کا جا ئے کہ اسلامی نظام معشیت کی حوصلہ شکنی کی جا ر ہی ہے یا غیر ضروری بحث کی جا رہی ہے . ان میں سے کوئی بات نہیں . فیڈرل شریعت کورٹ نے حرمت سود پر فیصلہ دیا اور سپریم کورٹ پاکستان نے بھی ، لیکن سپریم کورٹ نے پھر شریعت کورٹ کو ٢٠٠٢ میں واپس کر دیا تاکہ اس پر دوبارہ غور کا جاے، جو فیصلہ بڑے جوش سے دیا گیا اب تک pending ہے ،
ا لازہر کی آراؤں کا مثبت پہلو بھی دیکھا جا سکتا ہے اگر کوئی ہے، اس سے کوئی حتمی نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتاہے . اب پچھلے دنوں کے منعقدہ سیمارز جو اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام کروائے گئے ، ان سے بازگشت آ رہی ہے کہ "ربا "کی تعریف از سر نو کی جائے اس کے لیے طلوع اسلام سے پہلے رواجوں اور لغات، اور تعامل کا بہ غور مطالعہ کیا جائے تاکہ نصوص کی تعبیر و تشریح اقرب الحق کی جا سکے. اس سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جو کچھ پہلے کیا گیا ہے اس کو حرف آخر نہیں سمجھا گیا اور یہ مسلہء مزید غو ر و فکر کا متقاضی گردانا گیا ہے. ظاہر ہے کہ اس ضمن میں انسانوں کے مصالح وابستہ ہیں کوئی بھی لغزش انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے. لیکن حضرت مودودی کے حوالے سے جب ہم دیکھتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ٢٠٠٢ سے پہلے جو بھی اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت ، ا ور علماے اسلام کی غالب اکثریت نےکہا وہ اس سود /اسلامی نظام معشیت کے بارے میں سید مودودی کی تعیلما ت سے"ہم آہنگ"ہے ، یہ علیٰحدہ بات ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے .
مولانا بنیادی طور پر راسخ العقیدہ Orthodox قسم کے مفکر ہیں لہذا وہ دیگر معاملات کی طرح معاشی معاملات میں بھی اپنے آپ کو حتی الامکان اسلاف سے ہم اہنگ رکھتے ہیں(پروفیسر ڈاکٹر فاروق عزیز ) غلامی کے عنوان میں یہی نظر آتا ہے حالانکہ اس سے پہلے غلامی کے موزوں پر مباحث ہو چکے تھے اور سر سید نے اس بات کا رد کیا کہ غلامی وغیرہ کا اسلام میں کوئی مقام نہیں ہے .مولانا نے معاشی فلسفے کے ان پہلوؤں پر زیادہ بحث کی ہے . جو الہیات اور اخلاقیات سے متاثر ہوتا ہے. اسلام کے معاشی پہلو پر گفتگو کرتے وقت وہ فرض کر لیتے ہیں کہ وہ ایک مثالی اسلامی معاشرہ میں ان تعلیمات کی تفہیم کر رہے ہیں جو ابتدائی اسلامی عہد کی منہاج پر قائم ہے لیکن محض تمدنی اور تکنیکی لحاظ سے آگے ہے . اسی وجہ سے انہوں نے عصر حاضر کے بہت سارے مسائل کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا ہے کہ ایک Ideal معاشرے میں ان کا وجود نہیں ہو گا.-
سید مودودی کے نزدیک اسلامی معاشی نظام میں یہ خصوصیات ہوتی ہیں.
١. انسانی آزادی--٢. اخلاقی و مادی ہم آہنگی --٣ عدل -٤- تقسیم دولت میں مساوات .... مولانا ایک آزاد معیشت کے حامی ہیں جو نجی ملکیت اور منا فع کے محرک کے تحت کام کرتی ہے. اور اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کی موثر گرفت میں بھی ہے. --ان کے نزدیک زمین لا محدود حد تک نجی ملکیت میں ممکن ہے. سرمائےاور محنت کی کشمکش کا حل اعلی اخلاقی اصول اور ان پر عمل درآمد ہے. ڈاکٹر فاروق عزیز اس میں مزید اضافہ کرتے ہیں کہ. انہوں نے ربا-سود- کے حق میں دی جانے والے دلائل کی بہت موثر ،ٹھوس اور علمی انداز میں تردید کی ہے تاہم ان کے نزدیک امتناع ربا کی بنیادی وجوہ اخلاقی ہیں اگرچہ اس حوالے سے انہوں نے کچھ عمومی نوعیت کے معاشی دلائل بھی دیئے ہیں تا ہم ان دلائل کے کوئی ٹھوس ثبوت انہوں نے نہیں دیئے. زکات کی شرح اور مدت زکات دونوں ان کے نزدیک غیر متبدل ہیں.--مروجہ اسلامی معاشی تصورات قرانی تناظر میں ----از ڈاکٹر فاروق عزیز --ص-١٢،١٣.